اور سب زندگی پہ تہمت ہے
زندگی آپ اپنی لذت ہے

میرے اور میرے اس خدا کے بیچ
ہے اگر لفظ تو 'Ù…Ø+بت' ہے

اک سوال اور اک سوال کے بعد
انتہا Ø+یرتوں Ú©ÛŒ Ø+یرت ہے

عہد شیطان کا خدا کے ساتھ
سرکشی ہے مگر عبادت ہے

بھید جانے کوئی مگر کیسے
یار کو یار سے جو نسبت ہے

خواب میں ایک شکل تھی میرے
تُو تو اُس سے بھی خوبصورت ہے

پہلے مجھ کو تھی اور اب تیری
میری تنہائی کو ضرورت ہے

گھٹتا بڑھتا رہا مرا سایہ
ساتھ چلنے میں کتنی زØ+مت ہے

زندگی کو مری ضرورت تھی
زندگی اب مری ضرورت ہے

لکھنے والے ہی جان سکتے ہیں
لفظ لکھنے میں جو قیامت ہے

تھی کبھی شاعری کمال مرا
شاعری اب مری کرامت ہے